Mark 6 Urdu
From Textus Receptus
Line 4: | Line 4: | ||
۱ | ۱ | ||
- | - | + | -پھِر وہاں سے نِکل کر وہ اپنے وطن میں آیا اور اُس کے شاگِرد اُس کے پِیچھے ہولئِے |
۲ | ۲ | ||
- | جب سبت کا دِن آیا تو وہ عِبادت خانہ میں تعلِیم دینے لگا اور | + | جب سبت کا دِن آیا تو وہ عِبادت خانہ میں تعلِیم دینے لگا اور بُہت لوگ سُنکر حَیران ہُوئے اور کہنے لگے کہ یہ باتیں اِس میں کہاں سے آگِئیں؟ اور یہ کیا حِکمت ہے جو اِسے بخشی گئی اور کَیسے مُعجِزے اُس کے ہاتھ سے ظاہِر ہوتے ہیں؟ |
۳ | ۳ | ||
- | + | کیا یہ وُہی بڑھئی نہیں جو مرؔیم کا بیٹا اور یعقُؔوب اور یوسیؔس اور یُہوؔداہ اور شمعُؔون کا بھائی ہے؟ اور کیا اُس کی بہنیں یہاں ہمارے ہاں نہیں؟ پس اُنہوں نے اُس کے سبب سے ٹھوکر کھائی | |
۴ | ۴ | ||
- | -تب | + | -تب یِسُوؔع نے اُن سے کہا نبی اپنے وطن اور اپنے رِشتہ داروں اور اپنے گھر کے سِوا اَور کِہیں بے عِزّت نہیں ہوتا |
۵ | ۵ | ||
- | -اور وہ کوئی | + | -اور وہ کوئی مُعجِزہ وہاں نہ دِکھا سکا- صِرف تھوڑے سے بِیماروں پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں اچھّا کردِیا |
۶ | ۶ | ||
- | -اور اُس نے اُن کی بے اِعتقادی پر | + | -اور اُس نے اُن کی بے اِعتقادی پر تَعّجُب کیا- اور وہ چاروں طرف کے گاؤں میں تعلِیم دیتا پھِرا |
۷ | ۷ | ||
Line 32: | Line 32: | ||
۸ | ۸ | ||
- | -اور حُکم | + | -اور حُکم دِیا کہ راستہ کے لئِے لاٹھی کے سِوا کُچھ نہ لو- نہ روٹی- نہ جھولی- نہ اپنے کمر بند میں پَیسے |
۹ | ۹ | ||
- | -مگر | + | -مگر جُوتیاں پہنو اور دو کُرتے نہ پہنو |
۱۰ | ۱۰ | ||
Line 44: | Line 44: | ||
۱۱ | ۱۱ | ||
- | اور | + | اور جِتنے تمہیں قبُول نہ کریں اور تُمہاری نہ سُنیں توجب تم وہاں سے نِکلو، اپنے تلووں کی گَرد جھاڑدو تاکہ اُن پر گواہی ہو، میں تم سے سچ کہتا ہُوں، یہ اس شہر کی نسبت عدالت کے دن سدوؔم اور عموؔرہ زِیادہ قابلِ برداشت ہو جائے گا |
۱۲ | ۱۲ | ||
- | -اور اُنہوں نے روانہ ہوکر | + | -اور اُنہوں نے روانہ ہوکر مُنادی کی کہ تَوبہ کرو |
۱۳ | ۱۳ | ||
- | -اور بُہت سی بدرُوحوں کو نِکالا اور بُہت سے بِیماروں کو تیل | + | -اور بُہت سی بدرُوحوں کو نِکالا اور بُہت سے بِیماروں کو تیل مَل کر اچھّا کِیا |
۱۴ | ۱۴ | ||
- | اور | + | اور ہیروؔدیس بادشاہ نے اُس کا ذِکر سُنا کیونکہ اُس کا نام مشہُور ہو گیا تھا اور اُس نے کہا کہ یُوحؔنّا بپِتسمہ دینے والا مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے کیونکہ اُس سے مُعجِزے ظاہِر ہوتے تھے |
۱۵ | ۱۵ | ||
- | -مگر بعض کہتے تھے کہ | + | -مگر بعض کہتے تھے کہ ایلؔیّاہ ہے اور بعض یا نبیوں مِیں سے کِسی کی ماننِد ایک نبِی ہے |
۱۶ | ۱۶ | ||
- | -مگر | + | -مگر ہیرودؔیس نے سُن کر کہا کہ یہ یُوحؔنّا جِس کا سر مَیں نے کٹوایا وہی مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے |
۱۷ | ۱۷ | ||
- | کیونکہ | + | کیونکہ ہیروؔدیس نے اپنے آدمی کو بھیج کر یُوحؔنّا کو پکڑوایا اور اپنے بھائی فِلِپُّسؔ کی بِیوی ہیروؔدیاس کے سبب سے اُسے قَید خانہ میں باندھ رکھّا تھا کیونکہ ہیروؔدیس نے اُس سے بیاہ کرلِیا تھا |
۱۸ | ۱۸ | ||
- | -اور | + | -اور یُوحؔنّا نے ہیرودؔیس سے کہا تھا کہ اپنے بھائی کی بِیوی کو رکھنا تُجھے روا نہیں |
۱۹ | ۱۹ | ||
- | -پس | + | -پس ہیروؔدیاس اُس سے دُشمنی رکھتی اور چاہتی تھی کہا اُسے قتل کرائے مگر نہ ہوسکا |
۲۰ | ۲۰ | ||
- | کیونکہ | + | کیونکہ ہیرودؔیس یُوحؔنّا کو راستباز اور مُقدّس آدمی جان کر اُس سے ڈرتا اور اُسے بچائے رکھتا تھا اورجب اُس نے اُس کی باتیں کو سُنا کہ اُس نے بُہت کُچھ کیا تو سُنتا خُوشی سے تھا |
۲۱ | ۲۱ | ||
- | -اور مَوقع کے دِن جب | + | -اور مَوقع کے دِن جب ہیروؔدیس نے اپنی سالگرہ میں اپنے امِیروں اور فَوجی سرداروں اور گلِیؔل کے رئیِسوں کی ضِِیافت کی |
۲۲ | ۲۲ | ||
- | -اور اُسی | + | -اور اُسی ہیروؔدیاس کی بیٹی اندر آئی اور ناچ کر ہیروؔدیس اور اُس کے مہمانوں کو خُوش کِیا تو بادشاہ نے اُس لڑکی سے کہا جو چاہے مُجھ سے مانگ مَیں تُجھے دُونگا |
۲۳ | ۲۳ | ||
- | -اور اُس نے | + | -اور اُس نے قَسم کھائی کہ جو تُو مُجھ سے مانگیگی اپنی آدھی بادشاہت تک تُجھے دُونگا |
۲۴ | ۲۴ | ||
- | -اور اُس نے باہر جاکر اپنی ماں سے کہا کہ مَیں کیا مانگوں؟ اُس نے کہا | + | -اور اُس نے باہر جاکر اپنی ماں سے کہا کہ مَیں کیا مانگوں؟ اُس نے کہا یُوحؔنّا بپِتسمہ دینے والے کا سر |
۲۵ | ۲۵ | ||
- | -وہ فی | + | -وہ فی الفَور بادشاہ کے پاس جلدی سے اندر آئی اور اُس سے عرض کی مَیں چاہتی ہُوں کہ تُو یُوحؔنّا بپِتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں ابھی مُجھے منگوادے |
۲۶ | ۲۶ | ||
- | -بادشاہ بُہت غمگِین | + | -بادشاہ بُہت غمگِین ہُؤا مگر اپنی قَسموں اور مہمانوں کے سبب سے اُس سے اِنکار کرنا نہ چاہا |
۲۷ | ۲۷ | ||
- | -تب بادشاہ نے فی الفَور ایک سِپاہی کو حُکم دے کر بھیجا کہ اُس کا سر لائے- اُس جاکر | + | -تب بادشاہ نے فی الفَور ایک سِپاہی کو حُکم دے کر بھیجا کہ اُس کا سر لائے- اُس نے جاکر قَید خانہ مَیں اُس کا سرکاٹا |
۲۸ | ۲۸ | ||
Line 120: | Line 120: | ||
۳۰ | ۳۰ | ||
- | -اور رُسول | + | -اور رُسول یِسُوؔع کے پاس جمع ہوئے اور جو کُچھ اُنہوں نے کِیا اور سِکھایا تھا سب اُس سے بیان کِیا |
۳۱ | ۳۱ | ||
- | -اُس نے اُن سے کہا تُم آپ الگ | + | -اُس نے اُن سے کہا تُم آپ الگ وِیران جگہ میں چلے آؤ اور ذرا آرام کرو- اِسلئِے کہ بُہت لوگ آتے جاتے تھے اور اُن کو کھانا کھانے کی بھی فُرصت نہ مِلتی تھی |
۳۲ | ۳۲ | ||
- | -پس وہ کشتی میں بَیٹھ کر الگ ایک | + | -پس وہ کشتی میں بَیٹھ کر الگ ایک وِیران جگہ میں چلے گئے |
۳۳ | ۳۳ | ||
- | -اور لوگوں نے اُن کو جاتے دیکھا | + | -اور لوگوں نے اُن کو جاتے دیکھا اوربُہتیروں نے پہچان لِیا اور سب شہروں سے اِکٹّھے ہو کر پَیدل اُدھر دَوڑے اور اُن سے پہلے اُس کے پاس آئے |
۳۴ | ۳۴ | ||
- | -اور | + | -اور یِسُوؔع نے اُتر کر بڑی بھِیڑ دیکھی اور اُسے اُن پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانِند تھے جِنکا چرواہا نہ ہو اور وہ اُن کو بُہت سی باتوں کی تعلِیم دینے لگا |
۳۵ | ۳۵ | ||
Line 144: | Line 144: | ||
۳۶ | ۳۶ | ||
- | -اِن کو رُخصت کر تاکہ چاروں طرف کی بستِیوں اور | + | -اِن کو رُخصت کر تاکہ چاروں طرف کی بستِیوں اور گاؤں میں جاکر اپنے لئِے روٹی کھانے کو مول لیں، کیونکہ اُن کے پاس کھانے کو کُچھ نہیں |
۳۷ | ۳۷ | ||
- | -اُس نے اُن جواب میں کہا تُم ہی اِنہیں کھانے کو دو-اُنہوں نے اُس سے کہا کیا ہم جاکر | + | -اُس نے اُن جواب میں کہا تُم ہی اِنہیں کھانے کو دو-اُنہوں نے اُس سے کہا کیا ہم جاکر دوسَودِینار کی روٹیاں مول لائیں اور اِن کو کھلائیں؟ |
۳۸ | ۳۸ | ||
- | -اُس نے اُن سے کہا تُمہارے پاس کِتنی روٹیاں ہیں؟ | + | -اُس نے اُن سے کہا تُمہارے پاس کِتنی روٹیاں ہیں؟ جاؤ دیکھو- اُنہوں نے دریافت کرکے کہا پانچ روٹیاں اور دو مچھلِیاں |
۳۹ | ۳۹ | ||
Line 164: | Line 164: | ||
۴۱ | ۴۱ | ||
- | - | + | -پھِر اُس نے وہ پانچ روٹیاں توڑ کر شاگِردوں کو دیتا گیا کہ اُن کے آگے رکھّیں اور وہ مچھلِیاں بھی اُن سب میں بانٹ دِیں |
۴۲ | ۴۲ | ||
Line 172: | Line 172: | ||
۴۳ | ۴۳ | ||
- | -اور اُنہوں نے | + | -اور اُنہوں نے ٹُکڑوں اور مچھلیوں سے بارہ ٹوکریاں بھری اُٹھائِیں |
۴۴ | ۴۴ | ||
- | اور وہ | + | اور وہ جنہوں نے وہ روٹیاں کھائِیں پانچ ہزار مَرد کے قریب تھے |
۴۵ | ۴۵ | ||
- | -اور فی | + | -اور فی الفَور اُس نے اپنے شاگِردوں کو مجبُور کِیا کہ کشتی پر بَیٹھ کر اُس سے پہلے اُس پار بیت صؔیدا کو چلے جائیں جب تک وہ لوگوں کو رُخصت کرے |
۴۶ | ۴۶ | ||
Line 188: | Line 188: | ||
۴۷ | ۴۷ | ||
- | -اور جب شام | + | -اور جب شام ہُوئی تو کشتی جِھیل کے بِیچ میں تھی اور وہ اکیلا خُشکی پر تھا |
۴۸ | ۴۸ | ||
- | + | جب اُس نے دیکھا کہ وہ کھینے سے بُہت تنگ ہیں کیونکہ ہوا اُن کے مُخالِف تھی تو رات کے پچھلے پہر کے قریب یِسُوؔع جِھیل پر چلتا ہُؤا اُن کے پاس آیا اور اُن سے آگے نِکل جانا چاہتا تھا | |
۴۹ | ۴۹ | ||
Line 200: | Line 200: | ||
۵۰ | ۵۰ | ||
- | -کیونکہ سب اُسے دیکھ کر گھبرا گئے تھے مگھر اُس نے فی | + | -کیونکہ سب اُسے دیکھ کر گھبرا گئے تھے مگھر اُس نے فی الفَور اُن سے باتیں کِیں اور کہا خاطِر جمع رکھّو- مَیں ہُوں- ڈرو مت |
۵۱ | ۵۱ | ||
- | -پِھر وہ کشتی پر اُن کے پاس آیا اور ہوا تھم گئی اور وہ اپنے دِل میں نہایت | + | -پِھر وہ کشتی پر اُن کے پاس آیا اور ہوا تھم گئی اور وہ اپنے دِل میں نہایت حَیران ہوکر تَعّجُب کیا |
۵۲ | ۵۲ | ||
Line 212: | Line 212: | ||
۵۳ | ۵۳ | ||
- | -اور وہ پار جاکر | + | -اور وہ پار جاکر گنّیسؔرت کہ عِلاقہ میں پُہنچے اور کشتی گھاٹ پر لگائی |
۵۴ | ۵۴ | ||
Line 220: | Line 220: | ||
۵۵ | ۵۵ | ||
- | -اُس سارے عِلاقہ میں چاروں طرف دَوڑے اور | + | -اُس سارے عِلاقہ میں چاروں طرف دَوڑے اور بیِماروں کو چارپائیوں پر ڈال کر جہاں کہیں سُنا کہ وہ ہے وہاں لِئے پھرے |
۵۶ | ۵۶ | ||
- | + | اور وہ گاؤں- شہروں اور بستِیوں میں جہاں کہیں جاتا تھا لوگ بیِماروں کو بازاروں میں رکھ کر اُس کی مِنّت کرتے تھے کہ وہ صرف اُس کی پوشاک کا کَنارہ چُھولیں اور جِتنے اُسے چُھوتے تھے شِفا پاتے تھے </span></div></big> |
Revision as of 05:53, 5 September 2016
متّی - ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۸ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ مرقس - ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ لُوقا - ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ یُوحنّا - ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ َعمال - ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ رُومِیوں - ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ کرنتھیوں ۱ - ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ کرنتھیوں ۲ - ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ تھِسّلُنیکیوں ۲ - ۱ ۲ ۳ تِیمُتھِیُس ۲ - ۱ ۲ ۳ ۴ عِبرانیوں - ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ مُکاشفہ - ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ See Also: Urdu Old Testament |
---|
۱
-پھِر وہاں سے نِکل کر وہ اپنے وطن میں آیا اور اُس کے شاگِرد اُس کے پِیچھے ہولئِے
۲
جب سبت کا دِن آیا تو وہ عِبادت خانہ میں تعلِیم دینے لگا اور بُہت لوگ سُنکر حَیران ہُوئے اور کہنے لگے کہ یہ باتیں اِس میں کہاں سے آگِئیں؟ اور یہ کیا حِکمت ہے جو اِسے بخشی گئی اور کَیسے مُعجِزے اُس کے ہاتھ سے ظاہِر ہوتے ہیں؟
۳
کیا یہ وُہی بڑھئی نہیں جو مرؔیم کا بیٹا اور یعقُؔوب اور یوسیؔس اور یُہوؔداہ اور شمعُؔون کا بھائی ہے؟ اور کیا اُس کی بہنیں یہاں ہمارے ہاں نہیں؟ پس اُنہوں نے اُس کے سبب سے ٹھوکر کھائی
۴
-تب یِسُوؔع نے اُن سے کہا نبی اپنے وطن اور اپنے رِشتہ داروں اور اپنے گھر کے سِوا اَور کِہیں بے عِزّت نہیں ہوتا
۵
-اور وہ کوئی مُعجِزہ وہاں نہ دِکھا سکا- صِرف تھوڑے سے بِیماروں پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں اچھّا کردِیا
۶
-اور اُس نے اُن کی بے اِعتقادی پر تَعّجُب کیا- اور وہ چاروں طرف کے گاؤں میں تعلِیم دیتا پھِرا
۷
-اور اُس نے اُن بارہ کو اپنے پاس بُلاکر دو دو کرکے بھیجنا شُروع کِیا اور اُن کو ناپاک رُوحوں پر اِختیار بخشا
۸
-اور حُکم دِیا کہ راستہ کے لئِے لاٹھی کے سِوا کُچھ نہ لو- نہ روٹی- نہ جھولی- نہ اپنے کمر بند میں پَیسے
۹
-مگر جُوتیاں پہنو اور دو کُرتے نہ پہنو
۱۰
-اور اُس نے اُن سے کہا جہاں تُم کِسی گھر میں داخِل ہوتو اُسی میں رہو جب تک وہاں سے روانہ نہ ہو
۱۱
اور جِتنے تمہیں قبُول نہ کریں اور تُمہاری نہ سُنیں توجب تم وہاں سے نِکلو، اپنے تلووں کی گَرد جھاڑدو تاکہ اُن پر گواہی ہو، میں تم سے سچ کہتا ہُوں، یہ اس شہر کی نسبت عدالت کے دن سدوؔم اور عموؔرہ زِیادہ قابلِ برداشت ہو جائے گا
۱۲
-اور اُنہوں نے روانہ ہوکر مُنادی کی کہ تَوبہ کرو
۱۳
-اور بُہت سی بدرُوحوں کو نِکالا اور بُہت سے بِیماروں کو تیل مَل کر اچھّا کِیا
۱۴
اور ہیروؔدیس بادشاہ نے اُس کا ذِکر سُنا کیونکہ اُس کا نام مشہُور ہو گیا تھا اور اُس نے کہا کہ یُوحؔنّا بپِتسمہ دینے والا مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے کیونکہ اُس سے مُعجِزے ظاہِر ہوتے تھے
۱۵
-مگر بعض کہتے تھے کہ ایلؔیّاہ ہے اور بعض یا نبیوں مِیں سے کِسی کی ماننِد ایک نبِی ہے
۱۶
-مگر ہیرودؔیس نے سُن کر کہا کہ یہ یُوحؔنّا جِس کا سر مَیں نے کٹوایا وہی مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے
۱۷
کیونکہ ہیروؔدیس نے اپنے آدمی کو بھیج کر یُوحؔنّا کو پکڑوایا اور اپنے بھائی فِلِپُّسؔ کی بِیوی ہیروؔدیاس کے سبب سے اُسے قَید خانہ میں باندھ رکھّا تھا کیونکہ ہیروؔدیس نے اُس سے بیاہ کرلِیا تھا
۱۸
-اور یُوحؔنّا نے ہیرودؔیس سے کہا تھا کہ اپنے بھائی کی بِیوی کو رکھنا تُجھے روا نہیں
۱۹
-پس ہیروؔدیاس اُس سے دُشمنی رکھتی اور چاہتی تھی کہا اُسے قتل کرائے مگر نہ ہوسکا
۲۰
کیونکہ ہیرودؔیس یُوحؔنّا کو راستباز اور مُقدّس آدمی جان کر اُس سے ڈرتا اور اُسے بچائے رکھتا تھا اورجب اُس نے اُس کی باتیں کو سُنا کہ اُس نے بُہت کُچھ کیا تو سُنتا خُوشی سے تھا
۲۱
-اور مَوقع کے دِن جب ہیروؔدیس نے اپنی سالگرہ میں اپنے امِیروں اور فَوجی سرداروں اور گلِیؔل کے رئیِسوں کی ضِِیافت کی
۲۲
-اور اُسی ہیروؔدیاس کی بیٹی اندر آئی اور ناچ کر ہیروؔدیس اور اُس کے مہمانوں کو خُوش کِیا تو بادشاہ نے اُس لڑکی سے کہا جو چاہے مُجھ سے مانگ مَیں تُجھے دُونگا
۲۳
-اور اُس نے قَسم کھائی کہ جو تُو مُجھ سے مانگیگی اپنی آدھی بادشاہت تک تُجھے دُونگا
۲۴
-اور اُس نے باہر جاکر اپنی ماں سے کہا کہ مَیں کیا مانگوں؟ اُس نے کہا یُوحؔنّا بپِتسمہ دینے والے کا سر
۲۵
-وہ فی الفَور بادشاہ کے پاس جلدی سے اندر آئی اور اُس سے عرض کی مَیں چاہتی ہُوں کہ تُو یُوحؔنّا بپِتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں ابھی مُجھے منگوادے
۲۶
-بادشاہ بُہت غمگِین ہُؤا مگر اپنی قَسموں اور مہمانوں کے سبب سے اُس سے اِنکار کرنا نہ چاہا
۲۷
-تب بادشاہ نے فی الفَور ایک سِپاہی کو حُکم دے کر بھیجا کہ اُس کا سر لائے- اُس نے جاکر قَید خانہ مَیں اُس کا سرکاٹا
۲۸
-اور ایک تھال میں لاکر لڑکی کو دِیا اور لڑکی نے اپنی ماں کو دِیا
۲۹
-پھر اُس کے شاگِرد سُن کر آئے اور اُس کی لاش اُٹھا کر قبر میں رکھّی
۳۰
-اور رُسول یِسُوؔع کے پاس جمع ہوئے اور جو کُچھ اُنہوں نے کِیا اور سِکھایا تھا سب اُس سے بیان کِیا
۳۱
-اُس نے اُن سے کہا تُم آپ الگ وِیران جگہ میں چلے آؤ اور ذرا آرام کرو- اِسلئِے کہ بُہت لوگ آتے جاتے تھے اور اُن کو کھانا کھانے کی بھی فُرصت نہ مِلتی تھی
۳۲
-پس وہ کشتی میں بَیٹھ کر الگ ایک وِیران جگہ میں چلے گئے
۳۳
-اور لوگوں نے اُن کو جاتے دیکھا اوربُہتیروں نے پہچان لِیا اور سب شہروں سے اِکٹّھے ہو کر پَیدل اُدھر دَوڑے اور اُن سے پہلے اُس کے پاس آئے
۳۴
-اور یِسُوؔع نے اُتر کر بڑی بھِیڑ دیکھی اور اُسے اُن پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانِند تھے جِنکا چرواہا نہ ہو اور وہ اُن کو بُہت سی باتوں کی تعلِیم دینے لگا
۳۵
-جب دِن بُہت ڈھل گِیا تُو اُس کے شاگِرد اُس کے پاس آکر کہنے لگے یہ جگہ وِیران ہے اور دِن بُہت ڈھل گیا ہے
۳۶
-اِن کو رُخصت کر تاکہ چاروں طرف کی بستِیوں اور گاؤں میں جاکر اپنے لئِے روٹی کھانے کو مول لیں، کیونکہ اُن کے پاس کھانے کو کُچھ نہیں
۳۷
-اُس نے اُن جواب میں کہا تُم ہی اِنہیں کھانے کو دو-اُنہوں نے اُس سے کہا کیا ہم جاکر دوسَودِینار کی روٹیاں مول لائیں اور اِن کو کھلائیں؟
۳۸
-اُس نے اُن سے کہا تُمہارے پاس کِتنی روٹیاں ہیں؟ جاؤ دیکھو- اُنہوں نے دریافت کرکے کہا پانچ روٹیاں اور دو مچھلِیاں
۳۹
-تب اُس نے اُن کو حُکم دِیا کہ سب ہری گھاس پر دستہ دستہ ہوکر بَیٹھ جائیں
۴۰
-پس وہ سَو سَو اور پچاس پچاس کی قطاریں باندھ کر بَیٹھ گئے
۴۱
-پھِر اُس نے وہ پانچ روٹیاں توڑ کر شاگِردوں کو دیتا گیا کہ اُن کے آگے رکھّیں اور وہ مچھلِیاں بھی اُن سب میں بانٹ دِیں
۴۲
-پس وہ سب کھاکر سیر ہوگئے
۴۳
-اور اُنہوں نے ٹُکڑوں اور مچھلیوں سے بارہ ٹوکریاں بھری اُٹھائِیں
۴۴
اور وہ جنہوں نے وہ روٹیاں کھائِیں پانچ ہزار مَرد کے قریب تھے
۴۵
-اور فی الفَور اُس نے اپنے شاگِردوں کو مجبُور کِیا کہ کشتی پر بَیٹھ کر اُس سے پہلے اُس پار بیت صؔیدا کو چلے جائیں جب تک وہ لوگوں کو رُخصت کرے
۴۶
-اور خود اُن کو رُخصت کرکے پہاڑ پر دُعا کرنے چلاگیا
۴۷
-اور جب شام ہُوئی تو کشتی جِھیل کے بِیچ میں تھی اور وہ اکیلا خُشکی پر تھا
۴۸
جب اُس نے دیکھا کہ وہ کھینے سے بُہت تنگ ہیں کیونکہ ہوا اُن کے مُخالِف تھی تو رات کے پچھلے پہر کے قریب یِسُوؔع جِھیل پر چلتا ہُؤا اُن کے پاس آیا اور اُن سے آگے نِکل جانا چاہتا تھا
۴۹
-لیکن اُنہوں نے اُسے جِھیل پر چلتے دیکھ کر خیال کِیا کہ بُھوت ہے اور چلاّ اُٹھے
۵۰
-کیونکہ سب اُسے دیکھ کر گھبرا گئے تھے مگھر اُس نے فی الفَور اُن سے باتیں کِیں اور کہا خاطِر جمع رکھّو- مَیں ہُوں- ڈرو مت
۵۱
-پِھر وہ کشتی پر اُن کے پاس آیا اور ہوا تھم گئی اور وہ اپنے دِل میں نہایت حَیران ہوکر تَعّجُب کیا
۵۲
-اِس لِئے کہ وہ روٹیوں کے بارے میں نہ سمجھے تھے بلکہ اُن کے دِل سخت ہوگئے تھے
۵۳
-اور وہ پار جاکر گنّیسؔرت کہ عِلاقہ میں پُہنچے اور کشتی گھاٹ پر لگائی
۵۴
-اور جب کشتی پر سے اُترے تو فی الفَور لوگ اُسے پہچان کر
۵۵
-اُس سارے عِلاقہ میں چاروں طرف دَوڑے اور بیِماروں کو چارپائیوں پر ڈال کر جہاں کہیں سُنا کہ وہ ہے وہاں لِئے پھرے
۵۶
اور وہ گاؤں- شہروں اور بستِیوں میں جہاں کہیں جاتا تھا لوگ بیِماروں کو بازاروں میں رکھ کر اُس کی مِنّت کرتے تھے کہ وہ صرف اُس کی پوشاک کا کَنارہ چُھولیں اور جِتنے اُسے چُھوتے تھے شِفا پاتے تھے